گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو کسی کو یہ تو نہیں تھا پتا کہ اس کے نتیجے میں سرحد پار وہ قبائل جو پاکستان کے بلا معاوضہ محافظین ہیں ایک دن ناکردہ گناہوں کے جرم میں دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور ہوں گے۔ البتہ یہ ضرور معلوم تھا سب کو کہ اس جنگ میں عام بے گناہ لوگوں کی جان و مال کا بڑے پیمانے پر نقصان ہو جائے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 2004 ء میں جب ملٹری اپریشنز ہورہے تھے ، مولوی نیک محمد وزیر جنوبی وزیرستان میں طالبان کا پہلا آمیر تھا۔ تب تحریک طالبان پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھا، تب” گڈ اور بیڈ ". طالبان کا کوئی تصور نہیں تھا۔لیکن تب بھی عام بے گناہ قبائل ایسے ہی دربدر تھے جیسے کہ آج شمالی وزیرستان کے معصوم لوگ دربدر ہیں۔ طالبان اس وقت بھی محفوظ تھے اور آج بھی بحفاظت اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ اسلامک موؤمنٹ آف ازبکستان کے شدت پسند اس وقت بھی عام لوگوں، علمائے کرام اور قبائلی سرداروں کو مارتے تھے، وہی ازبک آج بھی ہماری طاقتورترین انٹیلی جنس کی نظروں سے دور پاکستان کے روشنیوں کے شہر میں گھس کر بے گناہ عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔
وزیرستان کے وہ غیور قبائل جن کی دہشت سے کبھی برطانیہ کا برصغیر پر راج ہلنے لگتا تھا تو کبھی کشمیر میں دشمن کو پسپا کیا۔ آج وہی غیور قبائل اپنے ہی لوگوں کی دہشت کا شکار ہیں۔ قبائل اور دوسرے پشتونوں کی دربدری کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایک طرف طالبان نے قبائلی ثقافت اور پورا نظام تباہ کرکے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف ملٹری اپریشن، ہر وقت کرفیو، پابندیاں ، ہوائی حملوں اور بمباری نے ان سے اپنے پیارے چھینے ہیں، ان کے وہ گھر جو ان کے لئے قلعوں کی مثال رکھتے تھے، تباہ کر دیے گئے۔ ا ن کے وہ پیارے جن سے بچھڑنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے ان سے زخموں میں تڑپتے ہوئے رہ گئے۔ کسی کی لاش بغیر کفن دفن کے رہ گئی۔ ان کا مال و دنیا ، ان کا کاروبار اور سب کچھ برباد ہو کر رہ گیا۔
یہ بے گناہ لوگ نام نہاد "امن مذاکرات” کے نام پر بھی ترسائے گئے، ڈرون حملوں میں بھی ان کی جان ومال کا نقصان ہوا، ملٹری اپریشنز میں بھی معصوم قبائل کا خون بہتا رہا اور طالبان کی طرف سے بھی صرف انہی پر شریعت نافذ کردیا گیا۔ سیاست کا بازار بھی قبائل کے نام پر گرم ہے، تبدیلی کے نعرے لگانے والے بھی انہی کے نام پر اپنی سیاسی بصیرت ثابت کرواتا رہا ہے۔ دوسری طرف طالبان آج بھی محفوظ ہیں، ملاّ فضل اللہ آج بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان نقل و حرکت کرتا رہتا ہے۔ سول اور ملٹری طاقتیں بھی ڈالرز حاصل کرتے رہتے ہیں، امریکہ بادشاہ اب بھی وزیرستان کو تباہ کرنے کے مطالبات کرتا رہتا ہے۔
میڈیا کے خود ساختہ خدایان کا بھی یہ کرم ہے کہ ان ہی کی وجہ سے قبائل حکیم اللہ محسود کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے قبائل کے معصوم بچوں کی شہادت کی خبروں کو دہشت گردوں کی ہلاکت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کرم فرما مسیحائے قوم ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر قبائل کے خون بیچ کر اپنا بزنس چلا رہے ہیں۔ جس دن کسی بے گناہ عام قبائلی کا قتل کیا جاتا ہے اس دن ٹی وی چینلز اور میڈیا کے بڑے بڑے اداروں کے ہاں بہت بڑے دہشت گرد کی موت کی بریکنگ نیوز بن کر ان کی بزنس کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ لیکن کسی کو اس ماں کی فریاد نہیں سنائی دیتی جس کے کسی جوان بیٹے کی لاش بغیر کفن دفن کے رہ گئی ہو، کسی کو اس باپ کے غم کا احساس نہیں ہو سکتا جس کی کمسن بچی کا آدھا جسم اپنے ہی قلعے نما مکان کے نیچے رہ جائے اور آدھا جسم کسی برائے نام قبر میں دفنا کر اپنے دوسرے زخمی بچوں کو بچانے کے لئے ننگے پاؤں بھاگتا پھرتا ہو۔ میڈیا کو اپنی بزنس سے پیار ہے، سیاسدانوں کو اپنی سیاست عزیز ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنا ‘انٹرسٹ’ پسند ہے۔
اس بار تو ظلم کی حد یہ ہو گئی کہ اپنے ملک کی سرزمین پر قبائل کو رہنے کے لئے جگہ بھی نہیں ملی ، اور نہ ان کو جانے کی گاڑی ، کوئی سواری ملی۔ ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں سنسان صحراؤں پر چل کر ان کو آخر کار افغانستان میں پناہ کی جگہ ملی۔ خوست صوبہ کے گورنر کے مطابق کوئی چھ سو کے قریب خاندانیں ابھی تک وہاں منتقل ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ گورنر خوست کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیرستان کے ان مہاجرین کے لئے ان کی اپنی حکومت پاکستان نے کچھ نہیں کیا جبکہ وہاں ان کے لئے ایک کیمپ تیار کرایا جا رہا ہے۔ قبائلی عورتیں اور بچے ننگے سر ننگے پاؤں بھوکے پیاسے وہاں پہنچ رہے ہیں۔ اور اس ملک میں سکون سے جینے کے لئے جاتے ہیں، جس میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج موجود ہیں اور جن سے لڑنے ، جہاد کرنے کے لئے طالبان برسرپیکار ہیں۔ لیکن میدان جنگ فاٹا بنا ہوا ہے۔
قبائل جس طرح ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں، بلاشبہ ان کے لئے بہت مشکل وقت ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، میڈیا اور ہم سب کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ لوگ کبھی نہیں بھولیں گے کہ ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔یہ وہ قبائل ہیں جو گزشتہ 10 سالوں سے حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ، اپریشن اور آنکھ مچولی میں بے گناہ مر رہے ہیں، اپنوں کو کھو رہے ہیں، یتیم ہورہے ہیں، جوان عورتیں بیوائیں ہو رہی ہیں، بہنیں اور بیٹیاں ننگے سر ننگے پاؤں گھروں سے نکل رہی ہیں اور ان کے بچے سکول، قلم و کتاب کے علاوہ دو وقت کے کھانے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ یہ بے قصور ہیں، لیکن طالبان آج بھی محفوظ ہیں، غیر ملکی شدت پسند آج بھی اس ملک کی طاقتور انٹیلی جنس کی نظروں سے دور ہیں۔
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں