رضا دوتانی

محرومیوں اور مصائب کی راکھ سے اٹھا ہوا، فریب سے مجروح اور روایات سے نالاں ایک عام شخص جسے ان حالات میں جینا آتا ہے جنمیں جینا ناممکن ہو۔ 

ایک خودمختار  ڈیجیٹل کارکن، انٹراپرینور اور آزاد بلاگر ہوں جس کی زیادہ تر زندگی ورچوئل دنیا میں گرزرتی ہے۔ جدید صحافت سے انٹراپرینورشپ تک، پیشہ ورانہ زندگی میں نئے مشاہدات و تجربات کے تعاقب میں رہتا ہوں۔ پیشہ ورانہ طور پر ایک ڈیجیٹل ایجنسی اور مختلف کثیرالمقاصد ویب سائٹس چلاتا ہوں۔ — جدید فری لانس ڈیجیٹل سروسز سےدنیا بھر میں اپنے کلائنٹس کے کاروبار کو فروغ دینے میں ان کی مدد کرتا ہوں ۔ تا حال سینکڑوں بزنسز کو ڈیجیٹائز کرکے جدید خطوط پر استوار  کر چکا ہوں۔ — سوشل میڈیا پر میرے دوست بنیے!

کچھ اپنی ذات بارے

فطرتاًتنہا پسند اورخاموش طبع مگر پُرجوش انسان ہوں۔ فراغت کے لمحات میں غیر افسانوی (نان فکشن) کتابیں پڑھنا، طنزومزاح کے پروگرامز دیکھنا، ڈائری لکھنا، نظمیں لکھنااور نجی طور پر نئے مقامات کی سیر کرنا میرے مشاغل میں شامل ہیں۔ اردو، پشتو اور فارسی کلاسیکی اور انگریزی پاپ موسیقی کا شوقین ہوں۔ سردی کی بارش، رات گئے اسلام آباد کی سڑکوں پر چہل قدمی، روایتی پاکستانی چائے، اور ہم خیال افراد سے گہری گفتگو  زیادہ پسند کرتا ہوں۔

غنی خان اور فیض احمد فیض کی شاعری، بابا بلھے شاہ اور مولانا رومی کی صوفیئزم، باچا خان  کے فلسفہ عدم تشدد، مولانا وجیہ الدین کی تعلیمات سے متاثر ہوں۔ فیمنزم کا مضبوط حامی اور خواتین کی قائدانہ صلاحیتوں کا قائل ہوں۔ عاصمہ جہانگیر (مرحومہ)،  ملالہ یوسفزئی، منیبہ مزاری، ایمان مزاری، کشور ناہید اور فریدہ شہید جیسی خواتین کی فعالیت کا مداح ہوں۔

سماجی اور ڈیجیٹل کارکن ہونے کے ناطے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی عدم برداشت اور انتہا پسندی کے خاتمے، صنفی مساوات کے قیام، اور خواتین کی معاشی خودمختاری کے لئے اپنی پیشہ ورانہ خدمات مفت فراہم کرکے کوشاں رہتا ہوں۔ ذاتی تشہیر کا قائل نہیں اور اپنی سماجی سرگرمیوں اور فلاحی کاموں کو نجی رکھتا ہوں۔  پس پردہ حسب توفیق چند مستحق بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھاتا ہوں  جس سے مجھے حقیقی خوشی اور دلی سکون ملتا ہے۔

بحثیت ایک آزاد اور خودمختار بلاگر، سماجی مسائل، نوجوانوں کی آگاہی، مذہبی، سیاسی و معاشرتی رواداری، حقوق نسواں، آزادئ اظہار رائے، غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری اور ڈیجیٹل سیفٹی جیسے کازز اور من پسند موضوعات پر لکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ پیشہ ورانہ مقاصد کے لئے بلاگنگ کے ذریعے ڈیجیٹل ٹرانسفرمیشن، مصنوعی ذہانت، اور جدید ارتقاءکی پیشرفت بارے معلومات اور رہنمائی شیئر کرتا رہتا ہوں۔  میرے اولین مقاصد میں گمراہ کن معلومات کی نشاندہی اور تصحیح، صنفی مساوات کا فروغ، آن لائن ہراسانگی کے خلاف لڑنا، سیاسی اور مذہبی عدم برداشت کا خاتمہ اور آن لائن گالم گلوچ (ٹرولنگ) کا روک تھام شامل ہیں۔

میں کہ ایک صبرکا دریا نظر آتاہوں تجھے
تُو جو چاہے تو تیرے واسطے دریا رولوں!

میری کہانی ایک ان کہی اور ان سنی ہے۔ کہیں روایات کی آگ میں بہت حسیں خوابوں کو راکھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے، تو کہیں انسانیت کے پردے میں چھپی وحشتوں نے تڑپایا ہے۔ جن کی سیاہ زندگی میں اجالے لے کر آیا،انہوں نے انہی اجالوں میں سینے میں خنجر گھونپ دیے۔ جن اپنوں کے لئے اپنے آرمانوں کا قتل کردیا ہے، ان کی اپنائیت میں صعوبتیں جھیلی ہیں۔ میری کہانی ٹوٹے خوابوں، حیات کی آزمائشوں اور دھوکوں کی راکھ سے ابھرنے والی — ایک ان کہی — ہے جسے ابھی زباں دینا باقی ہے۔

میری ذات بے نوا نہیں،
میرے درد کی ہے ایک داستاں،
میں جن وحشتوں میں جیا ہوں،
میں وہ ان کہی سناؤں گا،
میرے زخموں کو زباں ملے،
کبھی آنسوؤں نے گر ساتھ دیا،
وہ محبتیں جن کی توہین ہوئی،
وہ عبادتیں جو رائیگاں گئیں،
میرے سجدوں کو کوئی صدا ملے،
اپنی ان کہی میں سناؤں گا۔

چند سطور میری کہانی سے

بنیادی تعلق میرا جنوبی وزیرستان میں آباد ایک پسماندہ قبیلے دوتانی سے ہے۔ ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والا میں پہلا بچہ تھا جسے سکول میں پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ صحافت اور ابلاغ عامہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی فلاح و بہبود کے سرگرمیاں جاری رکھیں اور نوجوانوں کے لئے نئے مواقع دریافت کرنے اور ان کے حصول میں مدد فراہم کرتا آیا ہوں۔

صحافت سےاپنے کیرئیر کا آغاز کیا مگر روایتی صحافت کے بجائے جدید ڈیجیٹل میڈیا کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ دیگر صحافیوں کے برعکس میں نے فیلڈ میں جا کر کام کرنے پر انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ کر نئے آئیڈیاز کو ترجیح دی۔ متعدد پروفیشنل کثیرالمقاصد ویب سائٹس بنا لیں اور کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قائم کیے۔ جدید ٹیکنالوجی ذرائع سےدوسرے رہنمائی کی اور نوجوانوں کو سٹیزن جرنلزم کی طرف راغب کرنے کے لئے کوشاں رہا۔

بچپن اور زمانہ طالبعلمی میں نے ہر طرح کی محرومیوں اور مجبوریوں میں گزارے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی نہ کوئی امید تھی مجھے اور نہ کوئی رستہ جس پر چل کر اپنی علمی تشنگی بجھا پاتا۔ تاہم زندگی کے  اعصاب شکن   اور ناقابل برداشت حالات میں گر کر سنبھلنا اور  خندہ پیشانی سے  تکالیف برداشت کرنا سیکھ چکا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ تین سال تک حصول تعلیم سے دور رہنے کے بعد تمام تر بے کسی، بے بسی اور مجبوریوں کے باوجود اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ نہ کوئی رہنما، نہ کوئی غمگسار، بس توکل علی اللہ کر کے جدوجہد شروع کی۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر سویا، اور ہوٹلوں سے باسی اور لوگوں کا جھوٹا کھانا کھایا۔ ایک دو عدد کپڑوں میں مہینے اور سال گزارے اور روز میلوں تک پیدل سفر کیا۔

دریں اثناء ایک مقامی ریڈیو میں ہوسٹنگ (میزبانی) کا موقع ملا۔ اور یہی سے مجھے اپنی اعصاب شکن جدوجہد کا صلہ ملنا شروع ہوگیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کوششیں کرتا رہا آور بالآخر ایک امتحان کے ذریعے سکالرشپ حاصل کر لیا اور یوں ابلاغ عامہ اور صحافت میں ماسٹر ڈگری میں یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا۔ مالی اور معاشی مشکلات کی وجہ سے دوبارہ یونیورسٹی چھوڑنا پڑا۔

2015ء میں اپنے سماجی کاموں اور آن لائن قبائلی علاقوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کی وجہ امریکی ایکسچینج پروگرام آئی وی ایل پی (IVLP) کے ایک ایم آر پی (ملٹی ریجنل پروگرام) کے لئے پاکستان سے مجھے بلا گیا۔ "امریکہ میں آئی ٹی اور ابلاغ” کی تھیم کے تحت 15 ممالک سے منتخب کیے گئے نوجوان انٹراپرینورز، صحافی، یوتھ لیڈرز اور آئی ٹی پروفیشنلز کا حصہ بن گیا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی اور زندگی بدلنے والی کامیابی تھی۔ بعد ازاں ایسے متعدد قومی اور بین الاقوامی پروگرامز کا حصہ بنا، اور مختلف جدید منصوبوں کا آغاز کردیا۔