ابھی وزیر اعظم ہاؤس سے لیکڈ فون کالز اور آڈیو ریکارڈنگ کی شرمندگی ان کے ماتھے سے صاف نہیں ہوئی تھی کہ اعظم سواتی کی زبان کو بند کروانے کے لئے انہوں نے ایک اور غلیظ حرکت کر دی۔ ان میں کوئی عقل ہوتی تو ان کو اتنی سمجھ ضرور ہوتی کہ ایسی حرکت کوئی جاہل بھی نہیں کرے گا جو کچھ یہ لوگ ایک عرصے سے کرتے آئے ہیں۔ کیونکہ جتنے یہ عقل کے اندھے ہیں جدید ڈیجیٹل دور میں آج کل کی نسل اتنی اندھی نہیں ہے۔
سنیچر کو پاکستان تحریک انصاف کے سنیٹر اعظم سواتی اور ان کی معزز بیگم کی کسی جعلی ویڈیو کا قصہ منظر عام پر آگیا۔ مذکورہ ویڈیو کو سواتی صاحب کی فیملی ممبرز کو کسی پرائویٹ نمبر سے بھیجا گیا تھا جس کا واضح مقصد صرف اور صرف ان کو بے عزت اور بدنام کرکے ان کی زبان بند کروانا تھا۔ مگر عقل کے ان اندھوں کو اتنا احساس تک نہیں کہ اگر انہوں نے بدترین جنسی اور جسمانی تشدد کے باوجود بھی آپ کو بے نقاب کرنے کی ہمت کی تو ایسی گھٹیا حرکت سے سواتی اور ان کی فیملی کو صرف ذہنی اذیت ہی دے سکتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
سواتی صاحب اور ان کی فیملی کو ذہنی اذیت تو دی لیکن ان کی کردارکشی اور بے عزتی نہیں کر پائے۔ ہاں البتہ آپ کی فرعونیت اور جہالت مزید عوام کے سامنے عیاں ہوگئی۔ سواتی صاحب کے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے اور ہر فرد ان کا پہلے سے زیادہ احترام کرنے لگا ہے۔
تقریباََ ہر فرد یہ جانتا ہے کہ اعظم سواتی کو انصاف مانگنے اور ان کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں یہ سب کچھ جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اس شرمناک حرکت کی صرف مذمت کرنا کافی نہیں اور جتنا اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اچھالا جائے گا اتنی ہی سواتی اور ان کی فیملی کو تکلیف پہنچے گی۔ تاہم حکومتی افراد اور اداروں کی طرف سے ایکشن لینے کے بجائے محض مذمت کا آجانا مضحکه خیز اور ایسی نامناسب ویڈیو بنانے سے زیادہ شرمناک بات ہے۔
دوسری طرف جب ان کو آئینہ دکھنے لگا اور اس میں ان کو اپنے ہی چہرے مکروہ دکھے تو ایف آئی اے جیسے اہم ادارے نے محض ایک بچگانہ سی کوشش کرکے بیان جاری کر دیا اور یہ کہہ کر واپس خواب خرگوش سونے لگا کہ مذکورہ ویڈیو جعلی ہے۔ بیان میں اعظم سواتی سے کہا کہ وہ ایف آئی کے پاس ایک شکایت درج کرائیں پھر اس کے بعد ہی اس کی مزید تفتیش ہو پائے گی۔ اب اس سے زیادہ بے شرمی اور نااہلی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بزرگ سیاستدان میڈیا پر آکر قوم کے سامنے دھاڑے مار مار کر رو رہے ہیں اور آپ ان سے کہہ رہے کہ وہ آکر شکایت کریں۔ ورنہ ہم تو سوئے ہوئے ہیں اور سوتے رہیں گے۔
ایک بات تو بلکل صاف ہے کہ یہ زمینی خدایان جو بنے بیٹھے ہیں آج بھی 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں جینے والی مخلوق ہیں۔ ان کے تمام حربے وہی پرانے اور بے کار جاہلانہ انتقامی کاروائیاں، خاندان کو نشانہ بنانا، بیوی اور بچوں کے ذہنی اذیتیں دینا وغیرہ وغیرہ ہیں۔ تاہم ان کو شاید اتنا احساس نہیں کہ جب بھی جتنا بھی یہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کریں گے، یہ مزید خود ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔
مکافات عمل قدرت کا ایک اٹل اصول ہے جو ہمیشہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہ وہ بلائیں ہوتی ہیں جو آپ نے خود پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی دن آپ کو ہی کاٹنے کے لئے آجاتی ہیں۔ خدا کا یہ نظام بہت دلچسپ ہے کہ ایک صبر کرتا ہے تو دوسرا مکافات عمل کے لئے تیار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ کسی کی زندگی جہنم بنا کر خدا سے اپنی زندگی کا سکون مانگنا بے کار ہے۔ مکافات عمل کا سلسلہ بہت وسیع، گہرا اور لمبا ہوتا ہے۔ مکافات عمل کی چکی چلتی تو آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے۔ یہاں موجودہ حکومتی پارٹی کے قائدین سے اتنا کہیں گے کہ آج آپ ان کے سگے ہیں کل نہیں ہوں گے۔
پاکستان میں یہ ایک بہت غور طلب اور گھمبیر مسئلہ ہے کہ ایسے واقعات اور معاملات میں ہم مذمت، تنقید، ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے نام پر متاثرہ افراد کو مزید اذیت دیتے ہیں۔ جتنی ہم ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں، جتنی زیادہ ہم ہمدردی دکھاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اچھالتے ہیں، اتنی زیادہ ہم متاثرہ افراد کی دل آزاری اور مزید دکھ کا سبب بن جاتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے واقعات میں متاثرین اور ان کے خاندانوں کا نام لئے بغیر حکومت اور اداروں کی بے حسی کا رونا روئے۔ لیکن اس سے بھی بہتر کام ہم یہ کر سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلانے کے بجائے سیدھا اداروں کے دروازے کھٹکھٹائیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ صحافی، وکلاء، سیاستدان، سماجی کارکن اور دیگر شعبہائے زندگی سے لوگ اٹھ کر عدالت پہنچ جاتے اور سب سے پہلے ایف آئی اے اور پی ٹی اے جیسے اداروں پر مقدمات درج کروا دیتے۔ یہ آج اعظم سواتی کے ساتھ ہوا ہے تو کل ہم سے کسی کے ساتھ ہوگا۔
بہر حال مذکورہ ویڈیو جس نے بھی بنائی ہو، اس سے قطع نظر یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وضاحتیں دینے اور ہمدردیاں دکھانے کے بجائے معاملے کی چھان بین کریں اور ویڈیو بنانے اور پھیلانے والوں کو سامنے لے آئیں۔ اس ڈیجیٹل دور میں پی ٹی اے اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے لئے اصل مجرموں کو معلوم کرکے سامنے لانا محض ایک دو دن کی بات ہے۔ ایک دو آئی پی ایڈریسز سے سارا معاملہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
پاکستان میں ہر سال سائبر سیکورٹی کی متعدد ٹرننگز دی جاتی ہیں۔ ڈیجیٹل سیفٹی کے لئے اور آن لائن ٹرولنگ اور ہراسانی کے روک تھام کے لئے ہزاروں افراد کو قومی و بین الاقوامی اداروں سے تربیت مل جاتی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایسے آن لائن اور ڈیجیٹل جرائم کی صورت میں ایف آئی اے اور پی ٹی اے جیسے ادارے کتنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور کتنی آسانی سے مجرموں کو حوالات میں پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم شرط یہ ہے کہ اگر ہمارے ادارے نیک نیت ہوں اور ان کے اپنے ہی افراد ان جرائم میں ملوث نہ ہوں۔
اب اس معاملے کو پیچیدہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ جتنی دیر تک یہ مسئلہ سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے گا اتنی ہی زیادہ اعظم سواتی اور اس کے معزز خاندان کو ذہنی اذیت ہم دیتے رہیں گے۔ لہٰذہ اس سے گریز کرنا چاہئے۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں کا اپنا موقف ہو گا جبکہ عوام کا صد فیصد الزام اداروں اور ان کے اہلکاورں پر ہی ہے. سوشل میڈیا پر اکثر صحافی اور باثر ورسوخ افراد بھی کھلے عام ریاستی اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور مزید برآن یہ کہ ہم اس چاہے بھی تو انکار نہیں کر سکتے۔ حقیقت میں اس گندگی کو پھیلانے میں جن کا بھی ہاتھ ہو، وہ ایک نہ ایک دن مکافات عمل کی زد میں آ ہی جائیں گے۔
اب اگر اس گھناؤنی حرکت میں اسٹیبلیشمنٹ کے افراد ملوث ہیں پھر بھی ایک محتاط طریقے سے بہت آسانی سے یہ پورا سلسلہ بند کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر حکومت چاہے تو ہی ایسا یہ ممکن ہے۔ میرے خیال سے اب ان کو آئینہ دکھ گیا ہوگا کہ اعظم سواتی کی کردار کشی اور بدنامی کرنے کے بجائے خود ان کی بینڈ بج رہی ہے۔ اگر آج انہوں نے اس کو نہیں روکا تو کل وہ بھی خود انہیں غلیظ انتقامی ہتھکنڈوں کی زد میں آجائیں گے۔
بھئی! آپ کے ہی اداروں کی کار ستانیاں ہیں یہ۔ جائیں متعلقہ اداروں کو جھنجوڑیں اور انتقام کے اس غلیظ حربے کو روکیں۔ ورنہ کل آپ اور آپ کے خاندان (خدا ناخواستہ) ان کا اگلا نشانہ ہوگا۔ آپ جس آگ سے دوسروں کے گھر جلانے لگے ہیں اسی آگ سے ایک نہ ایک دن آپ کا بھی گھر خاک ہو جائے گا۔
اگر حکومت پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے ذریعے مجرموں کے پکڑ کر سامنے نہیں لے آتی تو اس جرم میں ملوث چاہے جو بھی ہو لیکن قوم حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو ہی قصوروار مانے گی۔ بالکل اس طرح جس طرح انہوں نے وزیراعظم ہاؤس سے لیکڈ فون کالز اور آڈیو ریکارڈنگ کا معاملہ پس پردہ ڈال دیا اور عوام کو سمجھ آگئی کہ کس کی دال کالی ہے۔
یہ 90ء کی دہائی نہیں جب ایسی گھٹیا حرکتوں کے ذریعے لوگوں کی آواز کو دبایا جاتا تھا۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں عوامی آوازوں کو دبانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سوشل میڈیا کو مکمل طور پر بند یا ختم کرنا مشکل ہے۔ آپ جس بوکھلاہٹ کے شکار ہیں اس میں ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنا آپ کی مزید بینڈ بجوا دے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر حکومت یا ریاستی ادارے اس جرم میں ملوث نہیں تو اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے ورنہ کم از کم اس شرمناک سلسلے کو فی الفور روکا جائے۔ اس وقت حکومت اور اداروں کا کام الزامات کو رد کرنا اور وضاحتیں دینا نہیں بلکہ ایسے جرائم کا سلسلہ مکمل بند کروانا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ اگر حکومتی طرف سے یا اداروں کے اہلکاروں میں سے کوئی بھی اس میں ملوث ہے، ہمارا یہ مطالبہ ۔۔ یہ خواب، خواب ہی رہے گا کہ مجرموں کو حوالات تک لایا جائے اور سواتی صاحب کو انصاف دلایا جائے۔ تاہم اتنا یاد ضرور یاد رکھیں کہ جس طرح اعظم سواتی کل ان کا سگا (حکومت میں) تھا اور آج آپ ان کے سگے ہیں، کل بالکل اسی طرح آپ کی کردار کشی کے لئے یہ باؤلے کتے آپ کو بھی کاٹنے کو آجائیں گے۔ اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو بچے گا کوئی نہیں۔ آج اعظم سواتی، کل آپ میں سے کوئی۔