اس وقت افغان خواتین طالبان کے ایک ایسے جبر کا سامنا کر رہی ہیں جس میں ان کو صرف سانس لینے کی اجازت ہے۔ علاوہ ازیں ان کو نہ اپنی مرضی سے کچھ خریدنے، نہ گھر سے باہر جا کر اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنے، نہ کوئی کام کرنے اور نہ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر طالبان نے افغان خواتین سے تمام بنیادی انسانی حقوق چھین لیے ہیں۔ ان کا کوئی سہارا نہیں۔ یہاں تک ان کو یہ تک کہنے کا حق نہیں کہ ان کو صرف خدا کا سہارا ہے کیوں کہ ان کا حق بھی طالبان کی خدائی کے تسلط میں ہے۔ انسانی اور نسوانی حقوق کی پامالی کے لئے وہ اسلام اور اللہ کے دین کو ہی استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی دنیا غافل، عالمی طاقتیں بے فکر اور طالبان کے درپردہ حامی تماشبین بنے بیٹھے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے طالبان نامی یہ خود ساختہ خدایان لڑکیوں کی تعلیم سے ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک لڑکی کو تعلیم یافتہ بنانے سے پورا معاشرہ تعلیم یافتہ بن جاتا ہے اور اگر معاشرہ تعلیم یافتہ بن گیا تو ان کی بربریت اور وحشت کو ماننے والا کوئی نہیں بچے گا۔
فال آف کابل کے بعد ہمیں تھوڑی سی امید پیدا ہوگئی تھی کہ اس بار طالبان کسی حد تک سبق سیکھ چکے ہوں گے اور ماضی کی طرح انسانی حقوق خاص کر خواتین کے حقوق کی پامالی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ ان کو حکومت ایک ایسی حالت میں ملی کہ ان کو بیرونی طاقتوں سے مالی اور صنعتی مدد کی اشد ضرورت تھی۔ اس بار طالبان میں گذشتہ حکومت کے کچھ گنے چنے لوگ بھی شامل تھے اور کچھ طالبان قائدین بھی بین الاقوامی کمیونٹی میں جگہ حاصل کرنے کی لالچ میں دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ خواتین سے نرمی برتی جاتی ہے۔
شروع شروع میں جب انہوں نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی دینے کے وعدے کئے، تب جہاں لوگ خوشی منا رہے تھے کہ افغان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جائے گا وہاں ہمیں یہی ڈر لا حق ہو گیا کہ وہ محض تنقید اور دباؤ سے بچنے کے لئے ان کی ایک چال تھی۔
تقریباََ 15 مہینے پہلے جب طالبان نے لڑکیوں کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی وہ ان کا تعلیم نسواں کے خلاف اٹھانے والا پہلا قدم تھا۔ اس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے خلاف آواز اٹھائی جبکہ عالمی طاقتیں مکمل خاموش تھیں۔ سب کو اپنے مفادات سے غرض تھا۔ جب ان کو احساس ہو گیا کہ بین الاقوامی کمیونٹی خاموش ہے تب اگلا قدم انہوں نے عام خواتین کے خلاف اٹھایا۔ ایک نئے فرمان میں انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں کام کرنے والی صرف ان خواتین کو رعایت دی جا ئے گی جن کو طالبان سے اجازت ملے۔
طالبان کی اس بربریت کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی کمیونٹی میں مقام حاصل کرنے میں تاحال دشواری درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لڑکیوں کے سکولز رواں سال مارچ میں کھولنے کا وعدہ کیا جو کبھی پورا نہیں ہوا۔ اور اب انہوں نے خواتین کے حصول تعلیم کا آخری دروازہ بھی بند کر دیا۔
بین الاقوامی برادری کی خاموشی روز اول سے ایک بہت بڑی غفلت اور غفلت سے زیادہ منافقت ثابت ہوتی رہی ہے۔ جہاں ایک طرف امریکہ اور چین جیسے طاقتور ممالک اپنے مفادات کی خاطر طالبان کے قریب ہونے کی مجرمانہ کوشش کر رہے ہیں وہاں پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک اسی دھن میں میں خوش ہو کر طالبان کے پیچھے پیچھے ہیں۔ جب بڑوں کو اپنے مجرمانه خاموشی اور درپردہ رابطوں اور تعلقات میں کوئی شرم نہیں تو وہ کون ہوتے ہیں آواز اٹھانے والے۔
پرسوں جب طلبان نے افغان طالبات کے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تب صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی دنیا کو اس کا پتہ چلا۔ سماجی اور سیاسی کارکنان نے بھر پور طریقے سے طالبان کے اس ظلم کے خلاف مہم چلائی۔ اور تب جا کر بین الاقوامی طاقتوں سے کسی حد مذمت دیکھنے کو ملی تاہم وہ نامکمل تھی۔
دنیا کو یہ افغان خواتین کی محض تعلیم سے محرومی نظر آ رہی ہے لیکن در حقیقت وہ ایک ایسے جہنم میں رہ رہی ہیں جہاں ان کو صرف سانس لینے کی اجازت ہے۔ نہ صرف تعلیم کی ممانعت بلکہ ان کی زندگی کا ہر پہلو بہت اذیتناک ہے۔ میں اگر ایک جملے میں اس کو بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ افغانستان میں کم عمر لڑکیوں سے لے کر بزرگ خواتین تک طالبان کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے خدا کی دی ہوئی زندگی جینے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔
کابل کی ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ کے بی بی سی کو بتائے گئے الفاظ بہت دل دہلانے والے ہیں: "انہوں [طالبان] نے میرا وہ واحد رستہ تباہ کر دیا جو مجھے میرے مستقبل سے جوڑ سکتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ لکھ پڑھ کر میں اپنا مستقبل بنا لوں گی لیکن انہوں نے (میری امید) توڑ دی۔” اسلامی شریعہ کی ایک طالبہ نے کہا کہ طالبان کا یہ حکم اللہ اور اسلام کے دیے ہوئے حقوق کی منافی ہے۔ ایک سولہ سالہ افغان طالبہ نے الجزیرہ کو بتایا؛ "اگر تعلیم نہ ہو اور حالات ایسے ہی رہے تو لڑکیوں کی ایک نسل کو تاریک مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے کوئی حقوق نہیں ہوں گے۔”
کابل، ننگرہار اور دیگر شہروں میں نوجوانوں نے طلبان کی اس بربریت کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش تو کی لیکن طالبان نے ان کو بھی بزور شمشیر روک دیا۔ کچھ افغان صحافیوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد نے بھی استعفے دے کر اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھا کر طالبان کے خلاف اپنا احتجاج رقم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن ظاہر سی بات ہیں طالبان کے خلاف آواز اٹھانا موت کو دعوت دینا ہے۔ افغان عوام اور بالخصوص خواتین کا احتجاج کرنا ایسا ہے جیسے پنجرے میں بند پرندہ اڑنے کی کوشش کرتا ہو۔ وہ بدقسمت افغان ان ظالموں کی وحشت تلے زندگی گزار رہے ہیں۔
تاہم بین الاقوامی کمیونٹی سے افغان خواتین کے تمام حقوق چھن جانے کے بعد اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلنے کے بعد چند علامتی مذمتی بیانات آگئے ہیں۔ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا، "طالبان اس وقت تک بین الاقوامی برادری کا ایک قابل رکن بننے کی توقع نہیں کر سکتے جب تک وہ افغانستان میں سب کے حقوق کا احترام نہیں کرتے۔” واضح رہیں کہ پاکستان کی مدد سے اب بھی امریکہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے تعلقات استوار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ان کے اعلی اہلکار آئے روز اسلام آباد اور دوحا میں طالبان کے مولویان کو مکمل پروٹوکول دے کر ان سے ملتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مساوی تعلیم کے حق کی خلاف ورزی کرنے والی ایک نئی کوشش ہے جو افغان معاشرے سے خواتین کے خاتمے کو مزید تیز کرتی ہے۔۔۔۔ او بھئی! یہ کون سی نئی بات ہے؟ طالبان نے کب خواتین یا ان کے مساوی تعلیم کے حقوق کو مانا کب ہے اور کب ان حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی ہے؟ ۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم سے صرف اتنی مذمت کرنا اور اسی پر اکتفاء کرنا مضحکہ خیز ہے۔
پاکستانی وزیرخارجہ بلاول زرداری نے محض ایک ٹویٹ سے اپنا فرض نبھا دیا اور کہا کہ ہمیں طالبان کے اس اقدام سے مایوسی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر پچھلے مہینے طالبان سے ملنے سرکاری دورے پر کابل ایک ایسے وقت میں ایک بڑا وفد لیکر گئی ہوئی تھیں جب افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم (سکول اور کالجوں) پر طالبان کا قدعن لگا ہوا تھا۔
بین الاقوامی کمیونٹی بشمول پاکستان کی طرف سے محض سوشل میڈیا کی وجہ سے علامتی مذمت ہو جانا اور تشویش کا اظہار کرنا نہ صرف ناکافی ہے بلکہ ایسے جرائم میں طالبان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ افغان عوام بالخصوص خواتین کو طالبان کی بربریت سے نجات دینے والا کوئی نہیں۔ عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کے اداروں نے، اور طالبان کے ظاہر و باطن دوست ممالک۔۔، سب نے ایک ایسی مجرمانہ غفلت اختیار کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے طالبان یکے بعد دیگرے انسانی اور نسوانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے جارہے ہیں۔
بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ شاید طالبان نے لڑکیوں کے صرف یونیورسٹی جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس پابندی کے بعد لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم سے لیکے اعلی تعلیم تک علم حاصل کرنے کے تمام حقوق طالبان نے چھین لیے۔ سکولوں اور کالجوں کو ایک سال پہلے ہی بند کر دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ سے بچنے کے لئے انہوں نے مارچ میں لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کا جھوٹا وعدہ کیا تھا لیکن وعدہ پورا کرکے سکول کھولنے کے بجائے انہوں نے لڑکیوں کے یونیورسٹی جانے پر بھی پابندی لگا دی۔
اب افغانستان دنیا کا وہ واحد بدقسمت ملک بن گیا جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی ہے۔ یا یوں کہیں کہ جہاں لڑکیوں کو ان پڑھ رہ کر ان کو اندھیروں میں زندگی گزارنے کا حکم ہے۔
طالبان سربراہ حیبت اللہ اخونذادہ اور اس کے قریبی طالبان رہنما روز اول سے نہ صرف خواتین کی تعلیم کے سخت ترین مخالف ہیں بلکہ لڑکوں کے جدید سائنسی علوم کے حصول کے خلاف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب تک افغان خواتین کو کیسے یونیورسٹی جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل تھا؟
در اصل ایک سال پہلے ہی طالبان نے تعلیم نسواں کو ختم کرنے کا ابتداء پرائمری اور ثانوی تعلیم پر پابندی سے کی تھی۔ بی بی سی کے ساؤتھ ایشیا کی نام نگار یوگیٹا لیمے کے مطابق طالبان کے اندر کچھ لوگ ایسے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی کے خلاف تھے جو سال بھی طالبان کے اندر اس کشمکش کی وجہ بنے کہ یہ پابندی لگا دی جائے یا نہیں۔
لڑکیوں کے کلاس میں پارٹیشن کی گئی تھی اور ان کو مکمل پردے میں بیٹھے کلاس لینے کا حکم تھا۔ طالبان مکمل پابندی لگانے سے پہلے لڑکیوں پر جتنی سختی کر سکتے تھے وہ انہوں نے کی تھی۔ ان طالبات کو جدید سائنسی اور معاشی علوم مثلاََ انجینئرنگ، زراعت، اکنامکس وغیرہ میں داخلہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ جبکہ صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کو سختی سے منع کیا گیا تھا۔ صرف چند گنے چنے کورسز میں داخلہ لے سکتی تھی۔ جیسے اسلامی شریعہ اور تدریس وغیرہ۔ طالبان کی لڑکیوں کو یونیورسٹی جانے کی عارضی اجازت زیادہ پرانی نہیں بلکہ چند مہینے پہلے ہی ان کو امتحانات میں بیٹھنے کی آڑ میں یہ موقع ملا تھا جسے بالآخر ختم کر دیا گیا۔
اس وقت نہ صرف افغان خواتین بلکہ اس بدنصیب ملک میں زندہ رہنے والا ہر انسان ایک اذیتناک اور المناک زندگی جی رہا ہے۔ ان کو نجات دلانے والا کوئی نہیں، زندگی کو انسانوں کی طرح جینے کے لئے افغان خواتین کا کوئی سہارا نہیں۔ ان ظالموں نے ان بے بس افغانوں سے خدا کا سہارا بھی چھین لیا ہے کیونکہ اسلام اور خدا کا دین بھی وہ اپنا ٹھیکہ سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی برادری سے صرف علامتی مذمتی بیانات کے سوا کچھ نہیں آ رہا۔ مزید برآں کہ پاکستان اور چین سمیت کئی ایشیائی ممالک، کئی عرب ممالک، امریکہ بہادر اور کئی یورپین ممالک اسی تگ و دو میں ہے کہ کب طالبان سرپھیرے ان کے سگے بن جائیں گے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ طالبان کی نام نہاد حکومت ایک شتر بے مہار ہے۔ نہ کوئی آئین، نہ کوئی قانون، نہ کسی سے سفارتی تعلقات، نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ اور نہ کوئی سیاسی طور پر مستحکم قیادت ہے ان کے پاس۔ طالبان جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈے یا بچے اس کی مرضی۔ ایسی صورتحال میں افغان عوام کا کوئی سہارا نہیں۔ لیکن میں اور آپ بحثیت ایک ذمہ دار انسان اتنا کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے آواز اٹھائیں۔
سوشل میڈیا پر جاری ٹرینڈز "لیٹ ہر لرن”، "لیٹ افغان گرلز لرن” اور "آل آر نن” بہت پُر اثر اور طاقتور ٹرینڈز ہیں۔ آپ کے فالوور کم ہو یا زیادہ، اپنا کردار ادا کریں۔ یہ سوشل میڈیا کی ہی طاقت تھی کہ طالبان کو ایک سال تک خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانے نہیں دیا، سوشل میڈیا کی ہی وجہ سے ان کے بربریت دنیا کے سامنے آرہی ہے۔ اور سوشل میڈیا ہی افغان نوجوان نسل کو ہمت دے رہا کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں اور دنیا کے سامنے طالبان کی بربریت لائیں۔
ہم سب کو اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ افغانستان کی خواتین کی حالت زار انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس پر ہماری خاموشی مزید اسلام کے نام پر طالبان کے بڑھتے ہوئے جبر کا باعث بنتی ہے۔