عالمی یوم خواتین کے موقع پر میں پاکستان میں خواتین کی خودمختاری کے موضوع پر منعقدہ ایک آن لائن سیمینار میں پدرشاہی نظام (Patriarchy) پر بات کر رہا تھا۔ کچھ ساتھیوں کو میری باتیں ناگوار لگیں۔ ان کے جوابی لہجے سے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے ان کے دماغ پر کاری ضرب لگا دی ہو۔ اول تو مجھے اختلاف اس بات سے تھا کہ معاشرے کی چکی میں پستی عورت کے دکھ درد کا مرد سے پوچھا جاتا ہے۔ حالانکہ خواتین کے مسائل پر مردوں سے بہتر خواتین ہی بات کر سکتی ہیں۔ میں نے درخواست بھی کی کہ تنقید اور الزامات سر آنکھوں پر مگر ٹھوس اور درست دلائل کے ساتھ۔ مگر یار لوگ طیش میں آگئے تھے اور جا بے جا مذہبی حوالے دیتے رہیں۔ تاہم بعد میں جب ان کو میرے اسلامی تعلیمی پس منظر کا ادراک ہو گیا وہ قدرے ٹھنڈے پڑ گئے۔
میری کی گئی باتوں میں سے دو یہاں لفظ بہ لفظ دہرانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائیں کہ ان کو آگ کیونکر لگی!
سب سے پہلے تو مجھے اس بات پر اعتراض ہے کہ کسی مرد سے یہ کہا جائے کہ خواتین کو کیا مشکلات درپیش ہیں اور وہ کتنا گھٹن محسوس کرتی ہیں، وہ (مرد) اس پر بات کریں۔ کوئی بھی مرد، چاہے وہ کوئی بڑا دانشور ہو یا میری طرح ایک عام ڈیجیٹل کارکن، خاص کر ایسے نکات یا موضوعات پر بات کرنے کے منطقی طور پر اہل نہیں۔ تکلیف کی شدت کا احساس وہی بتا سکتا ہے جس پر گزر رہی ہو، تکلیف پہنچانے والے یا تکلیف میں دیکھنے والے نہیں بتا سکتے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ اس پر بات خواتین ہی کریں۔ دوسری نامناسب بات یہ کہ ہر دلیل اور ہر نکتے میں بار بار مذہب کو لانا غیر ضروری اور احمکانہ عمل ہے۔۔۔۔
ان اعتراضات سے جب میں نے اپنی بات کی ابتداء کی تو میرے ساتھی حضرات آگ بگولہ ہو گئے۔ ماحول گرم اور روایتی پاکستانی مباحثہ کی شکل اختیار کر گیا۔ یعنی — مردوں کا مجمع، مردوں کے دلائل، مردوں کی قضاوتیں اور موضوع خواتین اور خواتین کی حالت زار! — ہے نا مضحکہ خیز؟ — اس دوران مجھے وائس آف امریکہ سے وابسطہ صحافی اور شاعرہ محترمہ نذرانہ یوسفزئی کی ایک نظم شدت سے بار بار ذہن میں آتی رہی۔ (نظم کو بلاگ میں آگے جا کہ شامل کیا ہوا ہے)۔ سیمینار میں کی گئی باتیں، تنقید اور تجاویز سمیت مزید تفصیل کے ساتھ اس تحریر کے ذریعے شیئر کر رہا ہوں۔
معاشرتی علوم جیسے مضامین سے لیکر مذہبی خطبوں تک، حکومتی ایوانوں سے لیکر روایتی حجروں تک اور دوستوں یاروں کی محفلوں سے لیکر تعلیمی سیمیناروں تک، ہمارے بڑوں نے نوجوان نسل کو ہمیشہ معاشرے کی تصویر کا ایک ہی رخ دکھایا ہے، جس میں ہم بہت بہادر، باہمت، ایماندار، غرض ہر خوبی اور اعلیٰ اقدار والی قوم ہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک، منفی، اور بدترین صورتحال پیش کرتا ہے۔ سینکڑوں معاشرتی اور سماجی مسائل ایسے ہیں جنہیں ہم خاندانی اقدار، مذہبی عقائد، اور روایات کے نام پر نہ صرف نسل در نسل منتقل کرتے آئے ہیں بلکہ بتدریج انہیں پروان چڑھایا ہے۔
کچھ باتیں بہت کڑوی ہوتی ہیں لیکن سچ ہوتی ہیں، کچھ حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں مگر حقائق ہی ہوتے ہیں۔ ذرہ موازنہ کریں کہ جہاں تہذیب یافتہ ممالک میں بلا صنفی تفریق لوگ عالمی یوم خواتین کو خواتین کی قیادت، ذہانت اور ایک پُر امن معاشرے کی تعمیر میں خواتین کے کلیدی کردار کو سراہنے کے لئے مناتے ہیں، وہاں پاکستان میں یہ دن سال بھر حقوق نسواں کی پامالی، جنسی ہراسانی، سماجی ناانصافی اور گھریلو تشدد جیسی کئی صعوبتوں کے سوگ منانے کا دن بن جاتا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ تلخ حقائق اور کڑوی سچائیاں ہر عام و خاص اچھی طرح جانتا ہے پھر بھی اس کے ہر پہلو کو صرف باطنی منافقت اور پدر شاہی کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جب بات خواتین یا خواتین سے متعلق کسی معاملے کی ہو تو ہمارے پدر شاہی اور قدامت پسندی میں پلے بڑے لوگ سب سے پہلے مذہب اور پھر نام نہاد معاشرتی اقدار کی آڑ میں ایک ایسا طرز جاہلانہ اختیار کرتے ہیں جیسے کہ مذہب اور معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ صرف خواتین ہیں۔ انہیں اپنے گھر میں تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین کے بجائے لا علم اور مجبور خواتین پسند ہیں تاکہ وہ اپنے حقوق سے ناواقف رہ کر غلاموں کی طرح صرف ان کی خدمت کریں۔ نسل در نسل چلتی آئی یہ ذہنی پسماندگی صرف کم پڑھے لکھے اور مذہبی لوگوں میں نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ اور تہذیب کے دعویدار خاندانوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اگر پھر بھی کسی کو توفیق ہو خوتین کی تعلیم و ہنر تو قبول کریں گے مگر ان کی خودمختاری نہیں۔
آپ ذرہ اپنے آس پاس اپنے جاننے والے تعلیم یافتہ اور بظاہر باشعور اور اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے دیکھیں۔ آپ کو ہر شخص میں ایسا بہروپیہ ملے گا جو بظاہر تو بہت نفیس بن کے دکھائے گا لیکن ذرہ سا موقع ملتے ہی اس کے بہروپ میں چھپا ہوا ہوس کا پجاری سامنے آئے گا۔ آپ نے ایسے بہروپیے بھی دیکھے ہوں گے جو پہلے بڑی نفاست کے ساتھ آپ کو ورغلاتے ہیں اور پھر بہت مکاری کے ساتھ آپ کی عزت نفس دیمک کی طرح چاٹتے ہیں۔ مگر بوقت ضرورت ان کو صرف اپنی جھوٹی ساکھ اور کھوکھلی شخصیت کی پرواہ ہوتی ہے، آپ کی قدر اور آپ کی عزت جائیں بھاڑ میں۔
ذرہ عورت مارچ کو پیش نظر رکھ کے دیکھیں! پاکستان میں جب سے یہ تحریک شروع ہو گئی ہے، اس کے خلاف نامناسب الزامات اور گالم گلوچ کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے مشرقی معاشرے پر کسی نے ایٹمی حملہ کردیا ہے، جیسے کفر نے اسلام کی بنیادیں ہلا دیں ہیں، اور جیسے اغیار نے آپ کے زنگ آلود نظام پر وار کیا ہے۔ حالانکہ عورت مارچ کے ذریعے مطالبہ صرف اتنا ہے کہ خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور نہتی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانہ بند کیا جائے۔ اس مارچ نے اس پدر شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی ہے جس میں خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا، جس میں بہنوں کو بھائیوں کے اور بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے میں حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے۔ عورت مارچ نے اس نظام عدل پر سوالات اٹھائے ہیں جس میں خواتین کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں مگر ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے، اس تحریک نے معاشرے کے ان اصولوں کو مسترد کرنے کی جرات کی ہے، جن میں خواتین کا مقام ایک غلام سے زیادہ کچھ نہیں، اور اس برابری کے لئے آواز اٹھائی ہے جس کا اسلام نے بھی مساوات کے نام سے درس دیا ہے۔
محض چند بے باک پوسٹرز کو بہانہ بنا کر اس پوری تحریک کو گمراہ کن قرار دینا کم علمی اور ذہنی پسماندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک طرف جب بات آپ کے معاشرتی اقدار اور مذہبی عقائد پر آجاتی ہے تو آپ مذہبی لبادے میں لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں، زندہ انسانوں کو جلا دیتے ہیں، اور جواں فکر مشال کو پتھر مار مار کے ہلاک کر دیتے ہیں۔ جس اسلام نے امن، صبر، برداشت اور عدل و مساوات کا درس دیا ہے، اسی اسلام کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جب خاندانی صعوبتوں اور گھریلو تشدد سے تنگ آ کر اور گلی، محلے، بازاروں، دفاتر اور درسگاہوں میں جنسی زیادتی کا شکار ہو کر عورت نے اپنےغم و غصے اور ناراضگی کا اظہار محض مرد مخالف پوسٹرز اور چند تیز و تند نعروں سے کیا، تو یہ آپ سے برداشت نہیں ہو پایا۔
یاد ہے جب 2020ء میں اسی کاز کی حمایت میں کچھ پینٹنگز بنائی گئی تھیں، جن میں خواتین کی فلاح و بہبود اور جینے کے حق کی عکاسی کی گئی تھی، وہ بھی آپ سے برداشت نہیں تھیں، اس کو بھی آپ نے بے حیائی قرار دیا تھا، جبکہ آئے روز بچوں اور خواتین کا جسمانی استحصال آپ کے لئے بے حیائی نہیں۔ بھئی معذرت کے ساتھ! اس سے بڑی منافقت کی بات اور کیا ہو سکتی؟
جب آپ پینٹنگز اور پوسٹرز کو بے حیائی قرار دیتے ہیں، فنون لطیفہ کو کفر سمجھتے ہیں، فنکار کو گمراہ کہتے ہیں، موسیقی اور شاعری کے آپ دشمن ہیں، ملازمت کرنے والی خواتین کو ناپسند کرتے ہیں، لیکن انسان ذبح کرنے والوں کو مذہب کے لئے خطرہ نہیں سمجھتے، بچوں کا مدارس اور مساجد میں جنسی استحصال پر تشویش کا اظہار تک نہیں کرتے، خواتین بشمول نابالغ بچیوں کا ریپ کرنے والوں کے خلاف کبھی لب کشائی کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ غیر مسلموں کو دن دھاڑے زندہ جلانے والے آپ کی تربیت کی کوک سے نکلتے ہیں، اور ملالہ کے قلم و کتاب کو آپ سازش سمجھتے ہیں۔ خاکم بدہن! پھر اسلام کو تو سب سے بڑا خطرہ آپ سے ہے، معاشرے کو تو ناقابل برداشت آپ نے بنایا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریپ کون کرتا ہے؟ جواب ہے، مرد! نابالغ بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ کون بنا دیتا ہے؟ مرد! عورتوں کو ہراساں کون کرتا ہے؟ مرد! تہہ در تہہ کئی پردوں میں ملبوس خواتین بھی محفوظ کس سے نہیں؟ مرد سے! بے حیائی کون پھیلاتا ہے؟ مرد! گھریلو تشدد مرد کرتا ہے، مال و جایئداد میں خواتین کا حصہ مرد ہڑپ لیتا ہے، اور ہر طرح کے جائز و نا جائز فیصلے مرد کرتا ہے۔ جب اس پدرشاہی نظام میں سب کرموں کا خالق و مالک مرد ہے تو عورت مجرم کیونکر ہوگی؟
اور آپ کس حیا کی بات کرتے ہیں؟ جو حیا معصوم بچوں اور بچیوں کی مدارس اور دیگر درسگاہوں میں تار تار کی جاتی ہے؟ آپ کن خاندانی اقدار کی بات کرتے ہیں؟ جن کے ذریعے خواتین کو جائیداد تو چھوڑیں اتنا بھی حق نہیں دینا چاہتے کہ وہ اپنے محٖفوظ مستقبل اور پُرسکون زندگی کے لئے اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کریں اور اپنی مرضی کی ملازمت یا کاروبار کریں؟
عورت مارچ تو چند سال پہلے 2018ء میں شروع ہوئی مگر عورت مخالف ذہنیت تو نسلوں سے پروان چھڑتی آئی ہے۔ کیا جنسی زیادتیاں، بچوں کا استحصال وغیرہ بے حیائی نہیں؟ لیکن آپ کے لئے تو ان زیادتیوں اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانا بے حیائی ہے۔ — آپ چاہتے ہیں کہ یہ بے حیائی ختم ہو؟ کیوں نہیں بھئی! جو روز گلی کوچوں محلوں درسگاہوں اور دفاتر میں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اس بے حیائی کو ختم کردیں۔ ریپ کرنے والوں کو سزا دیں، پدر شاہی میں عورت کے پَر کاٹنا بند کریں۔ بیٹیوں اور بہنوں سے پہلے اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو درست تربیت دیں۔۔۔۔ پھر عورت مارچ کی بے حیائی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ — نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری!
یہ بہت طویل بحث ہے جس کے ہر نقطے پر گناہ، جرم اور قصور مرد کا سامنے آتا ہے لیکن مجرم عورت کو بنا دیا جاتا ہے اور سزا عورت ہی بھگتی ہے۔ یا تو ہمیں ان تلخ حقائق کو تسلیم کرکے عورت مخالف ذہنیت کو جڑوں سے ختم کرکے پدر شاہی طرز زندگی بدلنا ہوگا، یا تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق بن کر عورت ہر سال، ہر مہینہ اور ہر روز اس پدر شاہی نظام (Patriarchy) کے خلاف آواز اٹھاتی رہی گی اور آپ کی خود ساختہ حیا اور زنگ آلود اقدار کی دیوار کو توڑنے کی جنگ جاری رکھے گی۔ کیونکہ آج کی تعلیم یافتہ خاتون بہتر جانتی ہے کہ اصل مسئلے کی جڑ کیا اور کہاں ہے۔
پاکستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم بلا تحقیق اور سچائی جانے بغیر نہایت سرعت میں ہر معاملے کو مذہب، غیرت اور حب الوطنی میں الجھا کر بگاڑ دیتے ہیں، چاہے وہ سماجی ہو، گھریلو ہو، سیاسی، مذہبی یا ذاتی ہو۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ غلط معلومات، بے جا افواہوں اور ہنگامہ خیز خبروں پر بغیر تصدیق و تحقیق کے یقین کرنا پاکستانی قوم کا سب سے بڑا ہنر ہے۔ علاوہ ازیں! المیہ یہ ہے کہ جب آپ کی رائے سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو آپ فوراََ مذہب کو بہت غلط اور گمراہ کن طریقے سے بحث میں گھسا دیتے ہیں حالانکہ خود کبھی کسی مذہبی کتاب کا سرورق بھی نہیں دیکھا ہوگا، نہ کبھی دینی مسائل یا تاریخ کے چند اوراق پلٹے ہوں گے۔ مشال کو یہی کم علمی اور جہالت کھا گئی۔
خواتین کی ابھرتی ہوئی تحریک کے بارے میں درجنوں غلط فہمیاں اور مضحکہ خیز افواہوں پر سبھی کو یقین ہے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ پدر شاہی نظام کی چکی میں نسلوں سے پستی عورت کی آواز سنے، یا عورت مارچ جیسی تحریکوں کے بارے میں پڑھیں اور تھوڑی سی تحقیق کریں کہ ان کے اصل اغراض و مقاصد اور مطالبات کیا ہیں؟ ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ مغرب سے درآمدہ کردہ ایجنڈہ ہے۔ بھئی اگر مغرب میں کوئی طبقہ یا گروه امن اور سلامتی کی بات کرے تو کیا آپ بدامنی پر اتر آئیں گے صرف اسلئے اگر مغربی معاشرہ امن چاہتا ہے تو آپ کو بدامنی چاہئیے؟ مزید بر آں، مغرب میں عالمی یوم خواتین پر خواتین کی قیادت، اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ جبکہ آپ کے ہاں تو خواتین جینے اور محٖفوظ مستقبل کے حق کے لئے لڑ رہی ہیں۔
سب سے گھٹیا الزام یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام سے بے حیائی اور فحاشی کو پھیلایا جاتا ہے۔ لیکن اس واشگاف سچائی سے سب نظزریں چراتے ہیں کہ پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ فحش مواد سرچ کرنے اور دیکھنے والے ممالک میں سے پہلے درجے پر فائز ہے۔ فحاشی اور بے حیائی آپ کے وہ بچے پھیلاتے ہیں جن کے لئے جنسی تعلیم حاصل کرنا آپ نے مکروہ قرار دیا ہوا ہے، جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ریپ کرنا، ہراساں کرنا اور بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔
کوئی بھی خاتون چاہے وہ ایک فیمینسٹ ہو، یا محض کہیں ملازمت کرتی ہو۔۔۔، وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ ہو، بے حیائی یا فحاشی کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی۔ ویسے فیمینزم کے نام سے ہمارے غیرتمندوں کو جو دورے پڑتے ہیں ان کا تو نہ ہی پوچھیں۔ ان کو میرا ہمیشہ مشورہ ہوتا ہے کہ بھئی اس سے پہلے کہ آپ کو کوئی ایسا دورہ پڑ جائے، برائے مہربانی جا کے فیمینزم کے بارے میں پڑھیں۔ سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، بہت پُرسیر ڈاکومینٹریز بنائی گئی ہیں اور کئی تحقیقی مقالے موجود ہیں جو آپ کو درست علم دیں گے، — لیکن اس پاک قوم کو کتاب پڑھنے کے لئے پورن دیکھنے سے فرصت ملے تو۔
فیمینسٹ خواتین کی ایک گناہ یہ ہے کہ انہوں نے سماج، سرکار، انصاف اور معاش میں مساوی حصہ مانگا کر مرد کا غلبہ مسترد کریا ہے۔ درحقیقت فیمینزم ایک بڑی تبدیلی ہے جس سے پدر شاہی یا پدرانہ نظام متزلزل ہو گیا ہے۔ اگر آسان الفاظ میں کہوں تو آج کی باشعور اور تعلیم یافتہ خاتون نے دولت، جائیداد، شہرت، محبت اور رشتوں جیسے جھانسوں میں آکر مرد کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا اور ان سب سے زیادہ اپنی عزت نفس، اور قدر کو ترجیح دینا سیکھ لیا۔ فیمینسٹ کمیونٹی کی اصل طاقت یہ بھی ہے کہ اپنے حقوق کے لئے خواتین کی آواز مباحثوں اور سوشل میڈیا سے نکل کر ان کی عملی زندگی میں حقیقی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی لئے پدر شاہی نظام کے لئے فیمینزم ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔
خاندانی اقدار، مضبوط رشتے، خونی رشتوں کی قدر و اہمیت اور دیگر سماجی روایات سب کو عزیز ہیں، مذہبی عقائد کے خلاف کوئی بھی نہیں، بشرطیکہ ان میں عورت سماجی طور پر محفوظ اور معاشی طور پر خودمختار ہو۔ مضبوط اور محفوظ رشتے جن میں ایک دوسرے کا احترام ہو، ساتھ دیا جاتا ہو، اور مساوات ہو، کسی نعمت سے کم نہیں۔ غیرتمندی یہ ہونی چاہئیے کہ آپ کی بیوی، بہن، بیٹی اور ماں آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو اور تمام تر حقوق اور فرائض میں بھر پور حصہ دار ہو۔ لیکن یہ غیرتمندی قطعاََ نہیں کہ آپ خواتین کو اپنے قدموں میں دیکھنا چاہیں۔۔ یہ بے غیرتی ہے۔
اگر آپ کو عورت مارچ ناپسند ہے تو اس پر کھل کے تنقید کریں لیکن ٹھوس دلائل اور مضبوط حقائق کے ساتھ۔ اگر آپ کو فیمینزم سے نفرت ہے تو پُر زور طریقے سے اس کی مخالفت کریں لیکن پہلے اس کو بنیاد سے جانیں، اس کے بارے میں پڑھیں اور بہترین دلائل کے ساتھ اس کی مخالفت کریں۔ مگر۔۔۔۔۔! کبھی بھی جا بے جا مذہب کو مت گھسائیں۔ خواتین کی آواز اور ان کی سماجی و معاشی خود مختاری کو دبانے کی بے غیرتی کو غیرت کا نام مت دیں۔ تھوڑی سی ہمت کر کے اسلام میں مساوات اور برداشت بارے پڑھیں، بابا بھلے شاہ کو پڑھیں، غنی خان اور فیض احمد فیض کو پڑھیں، باچا خان کے عدم تشدد کی جدوجہد پڑھیں، مولانا وجیہہ الدین کی تعلیمات پڑھیں ۔۔۔ سابقہ اور موجودہ ادوار کی مختلف تحاریک بارے پڑھیں، درسی کتابوں ماورا بزنس پڑھیں، مختلف مذاہب بارے پڑھیں، کامیاب عورتوں کی تاریخ پڑھیں، سیاست پڑھیں۔۔۔ پڑھیں، پڑھیں جتنا زیادہ ہو سکیں پڑھیں۔
ضرورت اس امر کی ہے ہمیں قدامت پسندی سے زیادہ جدت پسندی کو قبول کرکے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ہم معاشرے کو مزید غیر محفوظ بننے سے نہیں روک پائیں گے۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرنی ہے جس میں برداشت ہو، مساوات، عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی پاسداری ہو۔ اختلاف رائے کی قدر، غیر مذاہب کی حفاظت، خواتین کی معاشی خود مختاری، انصاف تک آسان رسائی۔۔۔ یہ سب ایک مضبوط اور پُرامن معاشرے کے اصل اقدار ہونے چاہئیے۔
درکار تبدیلی کا آغاز پہلے خود سے کرنا ہوگا، اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، اپنے گھر سے ابتداء کرنی ہوگی۔ یہ منافقت ہوگی کہ ہمارے اپنے گھر میں قدامت پرستی اور پدر شاہی کے اندھیرے چھائے ہوں اور ہم چلیں دوسروں کی دہلیز جھانک کر روشنی پھیلانے۔ صرف اتنا سا کر دیں کہ اپنی دہلیز پر خواتین کو تمام حقوق دلوا کر بآخیار بنا دیں۔ انسان عزت نفس اور قدر کے بغیر ایک زندہ لاش ہوتا ہے۔ ہر انسان کو زندگی فخر کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ مردانگی اسی میں ہے کہ عورت کو عزت نفس اور وقار کے ساتھ جینے دیں۔
سب سے زیادہ ضروری کام یہ کرنا ہے کہ اپنے بچوں (مرد) کی درست تربیت کریں۔ بیٹی یا بہن سے معمولی غلطی ہو جائے تو آپ اس کو کاٹنے کو دوڑتے ہیں لیکن اس سے کہیں بڑی غلطیاں اگر بھائی یا بیٹا کریں تو اس کی سرزنش تک نہیں کرتے۔ یہ منافقت ہے جو نہیں کرنا چاہیئے۔ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو تربیت دیں کہ وہ ایسے مرد نہ بنیں جن سے خواتین کو لسانی، جسمانی، ذہنی یا کسی قسم کی اذیت پہنچیں۔ ان کو پہلے یہ تعلیم دیں کہ ان کی وجہ سے کسی کسی خاتون کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہے کہ بلا صنفی تفریق اپنے بچوں اور گھر کے ہر فرد کے اختلاف رائے کی قدر کریں۔۔۔، کسی غیر طبقے، غیر فرقے یا غیر مذہب کو برداشت کرنا اور ان کی عزت کرنا سیکھیں۔ اسلام میں محض افواہوں اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر کسی انسان پر تہمت لگانے تک کی اجازت نہیں۔ جزا و سزا کے لئے عدالتیں اور قانون ہیں۔ اگر وہ بھی ناکام رہیں تو بھی کسی کو یہ حق نہیں کہ خود منصف بنیں، خود جزا و سزا دیں۔ قیامت کے دن اللہ وقت کے قاضی اور حکمران سے ضرور پوچھے گا۔
میرے خیال میں ایک کثیرلفوائد اور دیرپا عمل اپنے بچوں کو معاشی خودمختاری کے لئے تربیت دینا ہے۔ پچھلے دو سال سے میں نے سب سے زیادہ زور اس عمل پر دیا ہوا ہے کہ اپنے بہن بھائیوں کو قدیم پیشہ ورانہ ماحول اور ملازمت پیشہ طرز زندگی کے بجائے جدید طرزِ کاروبار اور معاشی آزادی کے گُر سکھا دوں۔ اس مقصد کے لئے زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے صرف ان کو جدید ٹولز، موثر رہنمائی اور صحیح پلیٹ فارمز میسر کرنا ہے۔ جب آپ کے بچے روایتی ملازمتوں کے پیچھے خوار ہونے کے بجائے اپنا کاروبار کرنا سیکھ جائیں گے، اس کے کئی سارے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ ہر قسم کی انتہا پسندی، فرقہ ورانہ کلچر، کسی بھی نسلی یا لسانی تعصب اور خواتین کے لئے غیر محفوظ صحبتوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔
میرے جاننے والے اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیوں زمانے سے ہٹ کے ہر کام کرتا ہوں اور مختلف طرز زندگی اپنایا ہوا ہے۔ گو کہ میرے مقاصد اور منازل کثیرالجہتی اور بڑے ہیں لیکن ایک بنیادی مقصد ایک ایسی فیملی کی تشکیل ہے جس کا ہر فرد خود کفیل ہو، اور معشی طور پر اتنا خودمختار ہو کہ ہر ایک مستقبل میں اپنے ایک خوشحال خاندان کا مالک ہو اور ایک پُرامن معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ مزید برآں کہ میرے پیاروں میں سے کوئی بھی ان ساری صعوبتوں سے نہ گزرے جن سے میں گزرا ہو، اور لوگوں کے ان دھوکوں کا شکار نہ ہو جنہوں نے میرے بڑے پیارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔
ایک اور بہترین کام جو ہم کر سکتے ہیں وہ والدین اور خاندان کے سربراہ کو کرنا ہوگا۔ بالخصوص جب جوان بیٹیوں اور بہنوں کو اعلی تعلیم کے لئے بھیجا جاتا ہے تو نصف سے زائد لڑکیاں والدین کے اس ڈر کی وجہ سے بہترین تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں کہ لڑکی سے کوئی غیر اخلاقی غلطی سرزد نہ ہو۔ منافقت کی بات تو یہ ہے کہ لڑکوں سے ایسی غلطیاں سرزد ہونے کا ڈر کبھی نہیں رکھتے۔۔۔ دراصل والدین کا وہ ڈر مرد سے ہی ہوتا ہے، وہ چاہے استاد ہو، دفتری انتظامیہ کے مرد ہو، کلاس کے لڑکے یا گھر سے باہر آمنا سامنا کرنے والے مرد۔۔۔! مگر انجام کے طور پر لڑکیوں کے نصیب میں تعلیم سے محرومی آجاتی ہے۔ تو بھئی! ضروری ہے کہ مرد کو روکا جائے۔ لڑکیوں کی درست تربیت کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کو معاشرے کی برائیوں سے بچنے کے لئے نصیحت دینا بلا شبہ اچھی بات ہے۔۔ مگر اس سے کئی گنا زیادہ ضروری مرد کی تربیت ہے، مرد کو روکنا مسئلے کا اصل علاج ہے۔ والدین کو اپنی بیٹیوں کو بہترین تعلیم دلوانے اور ان کی مرضی کی ملازمت یا کاروبار کرنے دینے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئیے۔ جتنی زیادہ پڑھی لکھی آپ کی بیٹی، آپ کی بہن ہو اتنی زیادہ وہ مضبوط اور باشعور ہوگی، اپنی اور آپ کی عزت نفس کا خیال رکھ پائے گی اور کسی مرد کے جھانسے میں نہیں آئے گی۔
گزارش اتنی ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے پَر کاٹنے کے بجائے مرد کی حرص و ہوس کی ہمت کو توڑ دیں۔
درج بالا اہم اقدامات سے زیادہ ضروری اقدام خواتین کے لئے غیر محفوظ معاشرے کی جڑوں میں سے ایک پدر شاہی یا پدرانہ نظام کی بھر پور حوصلہ شکنی کرکے اسے بتدریج ختم کرنا ہوگا۔ مجھے معلوم ہے یہ بات تہذیب و تمدن کے بہت سے دعویداروں کے ناگوار لگے گی مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس نظام میں خواتین کی حقیقی خودمختاری ممکن نہیں۔ ایک ماں، بڑی بہن یا بیوی! ایک باپ، بڑے بھائی یا شوہر سے بہتر خاندان بنا اور چلا سکتی ہے بشرطیکہ وہ خودمختار اور تعلیم یافتہ ہو۔
مجھے معلوم ہے کہ میری تحریر اور اس میں مذکورہ تلخ حقائق، تنقید اور تجاویز بہت سے لوگوں کے لئے زود ہضم نہیں ہوں گے۔ کوئی بات نہیں۔۔ اختلاف رائے ایک جمہوری معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ حقائق کو تسلیم کرکے ہر بندہ اپنا کردار ادا کرے اور اپنا فرض نبھائے۔ ہم موجودہ اور آنے والی نسلوں کے مقروض ہیں۔ ایک روادار اور پُرامن معاشرے کے قیام کا قرض ہم نے اتارنا ہے، ورنہ نہ تاریخ ہمیں معاف کرے گی اور نہ آنے والی نسلیں۔ یہ قرض اتارنے کے لئے ہمیں کہیں اور جانے اور دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا اور اپنے گھر سے ابتداء کرنی ہوگی۔
جیسے ہم اپنے آباء و اجداد اور والدین کی ماضی اور گزاری گئی ظاہر و باطن زندگی بارے جان لیتے ہیں، ویسے ہی ہماری آنے والی نسلیں ہماری ماضی اور گزاری گئی زندگی کے بارے میں بہتر جان لیں گے۔ حقائق اور سچائیاں ہزارہا چھپانے سے بھی نہیں چھپتی۔ اب یہ ہم پر منحصر ہیں کہ اپنی نئی نسل کے لئے ان سوالات کے کیا جوابات ہم چھوڑ کے جائیں گے کہ ہم کیسی زندگی گزاری اور ان کے لئے کیا مثال چھور کے گئے؟ کیا وہ ہمارے نقش نقدم پر چلنا پسند کریں گے؟