ایک درد ہے جو بار بار مار دیتا ہے۔۔۔ ایک زخم جو روح کو ہر روز مجروح کر دیتا ہے۔۔۔ اور ایک اداسی ہے جو مسکرانے نہیں دیتی۔ مگر وہ درد ضروری ہے۔۔۔ وہ زخم ہرا رہنا چاہئے۔۔۔ وہ اداسی قائم رہنی چاہئے۔۔۔
کچھ درد ہمیں اپنے آپ سے ملوا دیتے ہیں، کچھ زخم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ بظاہر نفیس دکھنے والے اور انسانیت کے گیت گانے والے لوگ اصل میں کتنے خود غرض، کتنے ظالم اور کتنے سفاک ہوتے ہیں۔ کچھ اداسیاں ہمیں سکھا دیتی ہیں کہ اندھا اعتماد اور بے حد محبت بہت حسین خوابوں کو چکنا چور کر دیتے ہیں۔
وہ درد۔۔ وہ زخم اور وہی اداسیاں ایک آگ بن کر دل میں جلنے لگتے ہیں، یہ سمجھا دیتے ہیں کہ مضبوط حوصلہ اور بڑی ہمت چاہئے ہوتی ہے، اس بے رحم معاشرے کے بے حس لوگوں میں جینے کے لئے۔ یہ درد ایک طاقت بن کے ہمارے اندر جنون کا ایک طوفان برپا کر دیتا ہے۔
پہلے مجھے یہ باتیں شاعرانہ لگتی تھی۔۔۔ جب انسان پر خود گزرتی ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ کچھ درد ضروری ہوتے ہیں اور کچھ زخم لگنے چاہئے، تب انسان ایک زخمی شیر بن جاتا ہے۔۔۔ وہ کہتے ہیں جب ایک ٹوٹا ہوا انسان دوبارہ کھڑا ہونے کی ہمت کرتا ہے تو وہ سب سے زیادہ مضبوط بن جاتا ہے۔
ہم مہربان بن کر دوسروں کو بناتے بناتے خود کو توڑ دیتے ہیں۔ اور دوسرے بڑی چالاکی اور شاطر دماغی کے ساتھ مفاد پرستی کی آگ میں ہماری روح تک بھسم کر ڈالتے ہیں۔ ان کی عیاری اور مکاری کا تب تک احساس نہیں ہو جاتا جب تک وہ سیدھا ہمارے میں سینے میں فریب کے خنجر نہیں گھونپ دیتے ہیں۔ لیکن جب ان سے زخم ملتے ہیں تب احساس ہو جاتا ہے کہ ہم خود ہی سانپوں اور ناگنوں کو پال لیتے ہیں جو وقت آنے پر ہمیں بہت بے رحمی سے ڈس لیتے ہیں۔ — انہی تلخ سچائیوں کو سے آشنا ہونے کے لئے کچھ درد، کچھ زخم ضروری ہوتے ہیں۔
ایسے درد انمول ہوتے ہیں۔۔۔ ان زخموں کو ہرا رہنا چاہئیے۔ یہی زخم چنگاریاں بن کر اندھیروں مشعل راہ بن جاتے ہیں اور یہی درد ہماری طاقت بن جاتے ہیں۔ — اس درد کو جانے مت دو۔
— رضا
— آکلینڈ (NZ)
— 24 اپریل، 2023ء