آرش اور میں دونوں کسی فرار کی تلاش میں تھے۔ ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں سے روحیں لہولہان اور بھروسے کے خنجر دونوں کے دلوں میں پیوست۔ قبل از فجر بغیر تعین منزل اسلام آباد سے نکل پڑے معلوم کسی کو بھی نہیں کہ کہاں جانا ہے۔ بس ایک فرار چاہئیے تھا دونوں کو۔
ہم بہت دیر تک گہری خاموشی میں سفر کر رہے تھے۔۔ بس کبھی کبھار منہ موڑے بغیر ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھ لیتے تھے۔ پھر کسی پولیس چیک پوسٹ پر ہم ضروری چیکنگ کے لئے رک گئے۔ وہاں سے پتہ چلا کہ ہم گلگت بلتستان کی طرف جا رہے ہیں۔۔۔۔ یعنی رستہ طویل اور ہم تینوں (میں، آرش اور اداسی) گونگوں کی طرح خاموش۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آرش نے سائڈ پاکیٹ سے ایک رومال نکالا اور اپنے منہ پر ڈال دیا۔ سیٹ کو پیچھے کی طرف جھکا کے سو جانے کی اداکاری کرنا شروع کیا۔ چند لمحے بعد وہ کچھ بڑبڑانے لگا اور بتدریج اس کا بڑبڑانا واضح سخن گوئی میں تبدیل ہو گیا۔
وہ خدا سے بات کر رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی دعا مانگ رہا ہو خدا، لیکن وہ باقاعدہ طور پر خودکلامی کی انداز میں رب سے ہمکلام ہو چکا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ہو نہیں اس کا درد بول رہا ہے۔
"میری ایک آرزو ہے خدا۔۔۔! کوئی فریاد نہیں۔ مجھے میری بساط سے زیادہ دیا ہے تُو نے۔ میں شکر گزار ہوں تیرا۔ جس محبت کے جنون میں، خود کو توڑ دیا تھا میں نے، اس جنون کا یہ آخری دم ہے۔ جس شخص کی خودغرضی میں بے خود کر دیا تھا میں نے خود کو، اس بے خودی کی ایک آخری تمنا ہے۔
میں نے اس کے دیے ہوئے ہر درد کو سینے سے لگایا ہے۔ ہر درد نے ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس کے دیے ہوئے ہر فریب نے ایک نئی ہمت دی ہے۔ شکر گزار ہوں میں اس خودغرض کا بھی۔۔۔، اس کے دیے ہوئے ہر زخم، ہر آنسو اور ہر غم کا شکر گزار ہوں۔
اس کی محبت کا حصار ٹوٹا ہے جب سے، میں زندگی کو زندگی کی طرح جینے لگا ہوں۔ کسی نہ سچ کہا ہوا ہے کہ: "تُو جب کسی کی زندگی سے کسی کو نکالتا ہے، تُو اس کو پہلے سے بہتر دیتا ہے”۔ بے شک تُو بہترین کارساز ہے۔ انصاف کرنے والے خدا۔۔۔ تیرا شکریہ! مگر میری دعا اس کی خوشی ہے، اسے کوئی غم نہ ملے۔
اس کی چاہت میں، میں نے خود کو بھلا دیا تھا، اس کی خوشی کے سامنے، اپنی خوشی بے معٰنی کردی تھی میں نے۔۔۔، اس کی مسکراہٹوں کی خاطر، اپنی مسکراہٹیں بھول گیا تھا۔۔۔۔، وہ مسکراتی تھی، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میری پوری دنیا مسکرانے لگتی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ باکمال تھی۔
وہ دغا باز کمال کی تھی۔۔۔، اپنے پیاروں سے دغابازی، اپنے دوستوں سے دغابازی۔۔۔۔ اس کی وحشتیں بے مثال۔۔۔ وہ فریبی بھی باکمال۔۔۔، اتنی باکمال کہ میرا شعور تک اس کے فریب میں تھا۔ اس کی مہارت کا کیا کہوں۔۔۔، وہ جھوٹ بول کر بھی لاجواب کر دیتی تھی۔ جب بھی بے وفائی کرتی تھی، مجھے محبت کے دھوکے میں ایسے اتار دیتی تھی کہ اس کی بے وفائی۔۔، بے وفائی نہیں لگتی تھی۔۔۔ میں نے اس پر اندھا اعتماد کیا، میں نے اس سے بے لوث محبت کی اورہر برے وقت میں اس کا ناقابل شکست ساتھ دیا۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔! اس کا دیا ہوا آخری فریب باکمال نہیں۔۔، بہت دل شکن تھا۔
آخری بار جب اس نے دھوکہ دیا، اس کی انسانیت وحشت میں بدل گئی، جس سے مجھ پر سے اس کی محبت کا حصار ٹوٹ بھی گیا، اور مجھے اس کے اور اس کی خوشیوں کے علاوہ اپنی دنیا اور اپنی خوشیاں نظر آئیں۔ اس کے دیے ہوئے ہر دکھ نے میرے لئے نئے راستے کھول دیے۔۔۔ میں شکر گزار ہوں میرے خدا۔ بس ایک تمنا ہے۔۔، اسے اس کے کیے ہوئے کرموں کی سزا مت دینا۔ کیوں کہ آج بھی میں اسےنہیں دیکھ سکتا، کسی دکھ میں، کسی آزمائش میں۔
اس کی خاطر میں اپنے پیاروں سے لڑا تھا۔۔، اپنے بہت مضبوط رشتوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔۔، کیونکہ وہ مجھے میرے بہت عزیز رشتوں سے بڑھ کر عزیز تھی۔ اتنی عزیز کہ میں بھول گیا تھا کہ اس کے علاوہ بھی میرے اپنے ہیں۔ مجھ پر بس اس کا جنون سوار تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ میری دنیا اسی سے شروع ہوئی ہے۔ میں عبادت کی طرح اس سے محبت کرتا تھا۔ مگر۔۔۔۔
سجدے میں جھک گیا میں،
کہ تیرا در نہ رہا،
جبین کو آگ لگی،
بندگی ٹوٹ گئی۔
جب اس کی وحشتوں اور اس کے جبر نے میری ذات کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا تب میرے انہی مضبوط رشتوں نے میرے ٹوٹے ہوئے دل کو سمیٹ کر مجھے تھام لیا، جن رشتوں کو میں نے اس کیلئے نظر انداز کیا تھا۔۔۔۔ اور جن پیاروں کو میں نے اس کی خاطر رلایا تھا، میرے انہی پیاروں نے اس کے دیے ہوئے میرے آنسو پونچھ لیے۔۔۔ میں شکر گزار ہوں خدا۔۔، مجھے مشکل وقت میں اپنے پیاروں کا کندھا ملا۔
میری دنیا میں چار سو بس وہی تھی۔ میرے ارادوں میں اس کی خوشیوں اور مسکراہٹوں کی حفاظت کرنا تھا۔ میں جو کبھی کسی مشکل سے نہیں ڈرا۔۔، کوئی طوفان ہو یا کوئی آزمائش۔۔، میں جو ہر مصیبت سے لڑنے کی طاقت رکھتا۔۔، لیکن اسے کھونے سے ہر لمحہ ڈرا ہوں، ہر پل اسے کھونے کے خوف سے بھی ڈرا ہوں۔ میں ہر اس بلا کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا تھا جس کا کبھی اس کی راہ میں آنے کا امکان تھا۔ اس کے ہر خوف کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ تبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی خوشیاں اور اس کی محبت میری زندگی کا دوسرا نام تھا۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ایک ایسی اژدھا کو دودھ پلاتا رہا کہ جسے جب بھی سر اٹھانے کا موقع ملے وہ سب سے پہلے مجھے ہی ڈس لے گی۔
میرے رب میں شکر گزار ہوں اس لئے بھی کہ مجھ پر زندگی کے تلخ حقائق کے کئی راز کھلے۔۔۔ جب اس کی زندگی میں اندھیروں اور خوف و ہراس کے سوا کچھ نہیں تھا، جب اسے یہ دنیا ایک ڈراؤنا خواب لگ رہی تھی، تب میں اس کے ساتھ تھا، مضبوط۔۔۔، ایک چٹان کی طرح۔ ۔۔۔لیکن۔۔۔ جب اس کی تاریکیوں کا سفر ختم ہو کر اس کی زندگی میں اُجالے آگئے ، اس نے سب سے پہلا خنجر میرے ہی سینے میں گھونپ دیا۔۔۔، جیسے ہی اس نے اجالوں میں قدم رکھ دیا، ویسے ہی اس نے مجھ ایک نئے اندھیرے میں دھکیل دیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اندھا اعتماد اور بے حد محبت انسان کی روح کو بہت گہرے زخم دیتے ہیں۔
مجھ پر یہ راز کھلا کہ جو انسان اپنے پیاروں سے دغا بازی کرسکتا ہے، جو انسان اپنے بہت عزیز دوست کو تھوڑا سچ اور زیادہ جھوٹ بول گمراہ کر سکتا ہے، وہ گہرے اخلاص، سچے ساتھ اور بے غرض محبت کی قدر کیا جانے۔ ایسے مادہ پرست اور مفاد پرست انسان کو تو اپنے پیاروں کے بھروسے کا ستیاناس کرنا آتا ہے، اپنی عزت نفس کی نیلامی کرنا، اور سچی محبت کی توہین کرنا آتا ہے۔۔۔۔ سچائی، ایمانداری اور وفاداری تو خودغرضوں کی بس کی بات نہیں۔
میں شکر گزار ہوں میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں! میں ٹوٹا نہیں، پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں۔ اس کا دیا ہوا ہر فریب میری طاقت بن گیا۔۔، اس کے دیے ہوئے زخموں نے مجھے نئے راستے دکھا دیے۔۔۔، یہ درد مجھے نہ ملتا تو میں ابھی تک اس کی محبت کے حصار میں قید ہوتا۔ اس کو درپیش ہر خوف کو بنیاد سے مٹانے کے لئے بہت خوفناک اور اعصاب شکن ارادے کر لئے تھے، ہر اس پوشیدہ بلا کو جڑ سے کاٹنے کے لئے جو صرف میں اور وہ جانتے تھے۔ میں مشکور ہوں کہ صحیح وقت پر اس نے دغا دیا اور مجھے ان بلاوؤں سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑا۔۔۔۔۔ اب! بس میری ایک خواہش ہے، کبھی اسے کوئی درد نہ ملے۔ اسے مکافات عمل کا سامنا کبھی نہ کرنا پڑے۔
مجھے کوئی شکوہ نہیں میرے رب۔۔! ایک درد۔۔، ایک فریب کے بدلے، تُو نے مجھے زندگی کی سب سے بڑی خوشیاں دیں، سچے اور مخلص لوگ دیے۔۔۔، ساتھ نبھانے والے، وعدے نبھانے والے لوگ۔۔۔، پیار نبھانے والے، رشتے نبھانے والے لوگ۔۔۔ میں شکر گزار ہوں۔۔۔ اور اس کے لئے۔۔۔! میری آخری آرزو ہے یہ۔۔، اسے کسی آزمائش میں مت ڈالنا۔
اس کے فریب کے بعد مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے، مجھے بہت قیمتی سبق ملا، اور زندگی کا ایسا رستہ ملا جس میں خوشیاں ہیں، سکون ہے، کامیابی اور روشنیاں ہیں۔ مجھے کوئی شکایت نہیں۔ بس ایک تمنا ہے کہ اسے بھی دلی سکون ملے۔ میں اس کی زندگی میں اُجالے دیکھنا چاہتا ہوں۔
میں نے اس سے بے پناہ محبت کی ہے۔ اس کی ہزار خامیوں، بے شمار بے وفائیوں اور سبھی وحشتوں کے باوجود اسے ہر شے سے بالاتر ہوکر اور ہر کسی سے بڑھ کر چاہا ہے۔
محبت کی یہ آخری آرزو ہے !!!
کبھی کسی کے سامنے اس کی نظریں نہ جھکے۔ زندگی میں اسے جو بھی ملے، وہ اتنی ہمت رکھتا ہو کہ اس کی خاطر دنیا سے لڑ سکے، جس میں اس کے لئے اپنوں سے لڑنے کا جگر ہو۔۔، اس میں اتنا دم ہو کہ اسے اپنانے کے لئے وہ اپنوں کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہو جائے۔ وہ اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک دے سکے، اس کی خوبیوں اور خامیوں کو دل سے لگا سکے، جو اس کو ہر کسی سے بڑھ کر ترجیح دے۔
لبوں پر یہ آخری دعا ہے۔ ── اس کی آنکھوں میں کبھی کوئی آنسو نہ آئے۔۔۔، تُو اس کی مسکراہٹوں اور خوشیوں کی حفاظت کر۔
چمن کو شعلہ ہائے گل سے کرنا باغباں روشن!
اگر پھر بھی اندھیرا ہو _ تو میرا گھر جلا دینا
آرش کی آہ، اس کا درد، اس کی اداسی۔۔۔ سب ناقابل تصور ہے۔ وہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ اس کی بناؤٹی مسکراہٹیں رلا دیتی ہیں۔ ہم علی الصبح ایک پُرسکون اور پُرفضا جگہ آگئے ہیں۔ جو فرار چاہئیے وہ ملے نہ ملے لیکن اداسیاں مسلسل ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔
— رضا دوتانی
— انڈس لاجز (گلگت بلتستان)
— 11 نومبر، 2022ء